اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

Sahafat Aur Adlia Kay Zabtay جون 8, 2010

 

Humaray Haan Aisii Hi Kiyun Hota Hai مئی 31, 2010

ہمارے ہاں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟

ہمارے ہاں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟ جسٹس جہانزیب رحیم کے سوالات ابھی تشنہٴ جواب تھے کہ جسٹس شاہ جہان کا معاملہ آگیا ، میرٹ کی بات کرنے والوں نے اُن کی سینیارٹی کا خیال کیوں نہیں رکھا؟اِس کے ساتھ ہی چیف جسٹس کے لئے آٹھ کروڑ کی مرسیڈیز گاڑی کی کہانی بیان کی جارہی ہے۔ پروٹوکول کے قانون میں چیف جسٹس کا مرتبہ کیا ہے اور اُنہیں گاڑی کس قانون کے تحت ملی؟ اِس کا تذکرہ بھی کئے دنوں تک چلتا رہے گا۔قبل از اسلام، اسلام اور بعداز اسلام سارے اخلاقی قوانین میں نرم زبان اور رحم دلی پر زور دیا گیا ہے، یوں بھی جو شخص کسی عدالت کے سامنے پیش ہو، وہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں ، محبت اور نرمی کا مستحق ہوتا ہے ، کسی نے جرم کیا ہے تو اُس کو سخت ترین سزا دی جائے، لیکن زبان کی تلخی اور رویہ کی سختی کسی صورت روا نہیں

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اِس قدر

کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی

اِس سے کہانیا ں بنتی ،تنازعے جنم لیتے اور اصولی معاملات ذاتیات کی گرد میں دب جاتے ہیں۔جب آپ ساری دنیا کو چور کہیں ، تو اِس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا اپنا دامن صاف شفاف ہو، ایک چھوٹا سا دھبہ آپ کے سارے وعظ کو بے کار کر دے گا۔

اچھا ہوا کہ چیف جسٹس نے گو جرانوالہ بار سے اپنے خطاب کی وضاحت کر دی ، بار کے ارکان سے چیف جسٹس کی ملاقاتیں کوئی خلافِ معمول بات نہیں ، بار اور بینچ میں چولی دامن کا رشتہ ہوتا ہے ، ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی تصور ہی نہیں ، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ ملاقاتوں کی سرکاری پریس ریلیز بھی جاری کی جائے؟ہینڈ آوٹ جاری ہونے سے پہلے اِس کو کسی نے دیکھا کیوں نہیں ؟بیان ساری رات میڈیا پر چلتا رہا کسی نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟اخبارات میں شہ سرخیاں بننے اور وزیرِاعظم کی طرف سے” جنگ“ کے لفظ پر تبصرے کے بعد وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ جج صاحبان کو کس حکیم نے مشورہ دیا ہے کہ بیان بازی کریں اور اپنے تبصروں کی تشہیر بھی کروائیں کہ اِس سے جو تاثر پیدا یا سوال کھڑا ہوتاہے۔ وہ عوام کے ذہنوں سے چپک جاتا اور تب تک نہیں اُترتا جب تک اُس کا موٴثر اور مدلل جواب نہ دیا جائے.

 کیا آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس کون ہے؟ کیا آپ میں سے کسی کو بھارت کے چیف جسٹس کا نام آتا ہے؟… واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ گارڈین‘ ٹائمز‘ انٹرنیشنل ہیرا لڈٹربیون، ہندوستان ٹائمز یا دنیا کے کسی کثیرالاشاعت اخبار میں آپ کو وہاں کے چیف جسٹس یا ججوں کے کتنے بیانات ملتے ہیں؟ کہیں یہ تو نہیں کہ وہاں ادارے اپنی بلوغت کو پہنچ چکے ہیں اور ہمارے ہاں ابھی تک بچپنا ہے‘ اس لیے اپنی موجودگی آواز کو بلند کرکے ظاہر کرتے ہیں؟؟… خود ہمارے اپنے ملک میں کیا بات ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے جج ہی زیادہ تر بیان بازی کرتے ہیں۔ پکڑلو‘ ماردو کی مالا جپتے ہیں۔ زیرسماعت مقدمات پر وہ وہ تبصرے کرتے ہیں کہ جن کا نہ کوئی تعلق ہوتا ہے نہ لینا دینا۔ کیا اِن باتوں سے سب کی عزت بڑھ رہی ہے‘ وقار میں اضافہ ہورہا ہے؟؟ پاکستان بنے ہوئے 63 سال ہونے کو آئے ہیں ایسا تو کئی بار ہوا ہوگا کہ عدالتوں نے تفتیش پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہو‘ تحقیق کے لیے حکام کو افسر بدلنے کا مشورہ دیا ہو۔ لیکن کیا کبھی ایک بار بھی ایسا ہوا کہ عدالت تفتیش کار بھی اپنی مرضی سے مامور کردے‘ نام دے کہ فلاں شخص سے تفتیش کرائی جائے؟

ہم نے کیوں یہ طے کرلیا ہے کہ عزت دار شخص کو متنازعہ بنا دینا ہے‘ اس کی نیک نامی کو باقی نہیں رہنے دینا؟ طارق کھوسہ ایک ایماندار پولیس افسر ہیں لیکن ایف آئی اے سے ہٹائے جانے کے بعد ان کی وفاقی حکومت سے ناراضگی سب جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود حکومت نے ان کو اپنے عہدے پر بحال نہیں کیا تھا‘ جس مقدمے کی تفتیش ان کے سپرد کرنے کی بات کی جارہی ہے اس میں پنجاب کے حکمرانوں پر بھی الزامات آرہے ہیں۔ اُن کے بھائی پنجاب کے چیف سیکرٹری ہیں‘ اپنے عہدے کے اعتبار سے پنجاب بینک کے دائریکٹر… کیسی عجیب تفتیش ہوگی کہ ایک بھائی مقدمے کا مدعی ہوگا اور ایک تفتیشی‘ کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوپائیں گے؟؟

کچھ یہی حال این آر او پر17 رکنی لارجر بنچ کا ہوگا کہ ایک بھائی جج ہوں گے اور دوسرے مرحوم بھائی پر الزام ہوگا کہ سوئٹزر لینڈ کے اٹارنی جنرل کو حکومتی منظوری کے بغیر ہی خط لکھ دیا جس بنیاد پر آصف زرداری مطعون ہیں وہ ساری کی ساری چودھری فاروق کی کھڑی کی ہوئی ہے جو نوازشریف کے اٹارنی جنرل تھے اور سیف الرحمن کے قانونی دماغ‘ وہی چودھری فاروق جنہوں نے سوئٹزر لینڈ کے اٹارنی جنرل کو کہلا بھیجا تھا کہ آصف زرداری کی ساری دولت منشیات سے حاصل کی گئی ہے‘ ڈرگ منی کو منجمد کرنے کی درخواست چودھری فاروق نے ہی کی تھی۔ یہ وہی مقدمہ تھا جسے اس وقت کے وزیرداخلہ چودھری شجاعت نے سراسر جھوٹا قرار دے دیا تھا۔ جس کے ملزم نے عدالت میں جاکر بیان دیا تھا کہ مقدمہ کس نے بنوایا اور وجہ کیا تھی؟ کیا جسٹس خلیل الرحمن رمدے اپنی تمام تر نیک نامی کے باوجود اپنے بھائی کے معاملے میں انصاف کرسکیں گے؟

کہنا بہت آسان ہے کہ ایک شخص عہدے پر آتا ہے تو سارے خاندان کی موجیں لگ جاتی ہیں لیکن خود اپنے گھر کو دیکھنا بڑا مشکل‘ ایک بھائی مسلم لیگ ن کا رکن اسمبلی‘ ایک بھائی اٹارنی جنرل اور ایک جج۔ اب بیٹا بھی مسلم لیگ ن کے قائد کا وکیل ۔ کیا یہ ساری باتیں عجیب ہیں یا پھر ہمارے ہاں کچھ بھی عجیب نہیں رہا کہ جج صاحب کے والد صاحب بھی جج اور سسر بھی جج۔ کہنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے۔ دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا۔آئینی ترامیم کے مقدمہ میں جسٹس زاہد حسین کو بینچ میں شامل نہ کرنے کا سوال حکومت نے اُٹھایا ہے، اُن کے بغیر فُل کورٹ کس طرح مکمل ہو گی؟ ججوں کی تقرری اِس وقت عملاً چیف جسٹس کی صوابدید کا نام ہے، اِس اعتبار سے وہ متاثرہ یا متعلقہ فریق ہیں ، وہ اپنے ہی معاملہ میں خود جج کس طرح ہو سکتے ہیں؟ How can he be Judge in his own cause? کسی بھی جج کو آئین کے آرٹیکل 209 کے سوا کس طرح معطل کیاجاسکتا اور اُس کو عدالتی کام سے کس طرح روکا جاسکتا ہے ؟ ؟؟سوالات ہیں اور سوالات کے اندر لاتعداد سوالات لیکن اصل سوال وہی ہے کہ یہ سب ہمارے ہاں ہی کیوں ہوتا ہے۔

 

New Plans to attack Supreme Court in Pakistan مئی 26, 2010

 

Babar Awan Ki Talbi!! مئی 14, 2010

 

Naye Soobon Ka Mutalba… Pakistan ki Qabar khodnay walay muslim leagii اپریل 15, 2010