Wednesday, May 09, 2007 |
"یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے " |
36 سال پہلے "چٹان” میں آغاشورش کاشمیری سے صحافت کی الف بے سیکھنا شروع کی تو انہوں نے بتایاکہ صحافی کا اصل سرمایہ اس کا مطالعہ ہوتا ہے کوئی صحافی جتنا وسیع المطالعہ ہوگا اتنا ہی کامیاب۔ اُنہوں نے راقم کے پہلے کالم کا عنوان بھی "حاصل مطالعہ” رکھا جو بعد میں "صریرِ خامہ” سے تبدیل ہوگیا۔ "حاصلِ مطالعہ” کسی معاملہ پر تبصرہ یا تنقید نہیں صرف کسی موضوع پر مختلف کتابوں میں درج اہم تحریروں کا انتخاب ہوتا تھا…کل ایسے ہی خیال آیا کہ اب بھی کبھی کبھار ایسی تحریر لکھی جانی چاہئے، جو محض قارئین کے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز دے سکے لیکن عجیب بات ہے کہ اس سلسلے کا آغاز ایک جانور سے کیا جارہا ہے۔ ایسا جانور جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے، حدیث میں بھی، تاریخ میں بھی ہے اور اقوال میں بھی… مراد کُتّے سے ہے کہ ابھی ایک خبر نظر سے گزری لاہور کے تھانہ جنوبی چھاؤنی میں کاٹنے اور بھونکنے پر ایک کُتّے کو گرفتار کرلیا گیا لیکن اس نے بھونک بھونک کر پولیس والوں کا ناطقہ بند کردیا۔کچھ لوگوں کے مطابق یہ نجس جانور ہے، تو کچھ کے نزدیک وفاداری کا نشان، کچھ اسے نفرت کی مثال جانتے ہیں تو کچھ محبت کی…سو بنیادی طور پر یہ ایک بالکل غیرسیاسی سلسلہ ہے جو وقتاً فوقتاً جاری رہے گا۔ |