اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

Musalmanon Kay Khoon Main Rangey huay Haath دسمبر 18, 2009

 

دہشت گردی کا علاج آسان ہے لیکن دسمبر 13, 2009

دہشت گردی کا علاج آسان ہے لیکن

اقبال کاکہنا ہے

قلندرجُزدوحرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیںرکھتا

فقیہہِ شہر قاروںہے لُغت ہائے حجازی کا

ہمارے ہاں روز بحث ہوتی ہے کہ خودکش حملوں کا ذمہ دار کون ہے اور ان کو روکا کیسے جاسکتا ہے؟ ہر شخص اپنی اپنی رائے دیتا ، اپنی اپنی بولی بولتا ہے لیکن اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جائے کہ ہم سب گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اپنے اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات سے آگے دیکھتے ہی نہیں‘ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ورنہ معاملہ انتہائی گھمبیر اور سنجیدہ ہونے کے باوجود اتنا مشکل نہیں کہ اس کو حل نہ کیا جاسکے۔ تاہم اس کے لیے بنیادی طور پر نیک نیتی‘ اخلاص اور یکسوئی کی ضرورت ہے …..  مریض صحت مند تب ہی ہوسکتا ہے جب اپنی بیماری کو مانے، خود کو بیما ر تسلیم کرے اور اس کا علاج کرنا یا کرانا چاہے۔ آپ مرنے

      Terminal Stageکی سطح یا

پر ہوں لیکن خود کو ہٹا کٹا سمجھیں تو آپ کو کون بچا سکتا ہے؟؟

?پاکستان میں خودکش حملوں یا دھماکوں میں ملوث لوگوں کو آسانی سے چار حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو اسے ایک نظریاتی جنگ اور دینی فریضہ سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اس نام نہاد جہاد کی پلاننگ کرتے اور اس کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں ….. دوسرا گروہ وہ ہے جو ان کا آلۂِ کار ہے دنیا یا آخرت کے لالچ میں اپنے آپ کو بیچ رہا یا جنت کی خواہش میں قربان ہورہا ہے ….. تیسراگروہ وہ اس سارے کام کے ملزموں کے وکیلوں کا ہے

Justifyجو مختلف دلیلوں اور تاویلوں سے ان حملوں کو جائز قرار دیتا اور ان کو

کرتا ہے

جبکہ چوتھا گروہ ان سارے کاموں کا پشت پناہ یا

  ہےMasterMind

پہلے اور دوسرے گروہ کو تو معاف بھی کیا جاسکتا  اور توبہ کرلیں تو ان سے روگردانی کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے کہ یہ معصوم لوگ ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ کیا کررہے ہیں؟ کس کے آلۂِ کار بنے ہوئے ہیں؟ وہ اپنی کارروائیوں سے اسلام کو مضبوط نہیں کررہے اس کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں ….. پہلے گروہ کی دین کے بارے میں معلومات بالکل سطحی ہیں انہیں دنیا کے حقائق کا بھی کچھ علم نہیں ان کو ہماری فوج کے پرانے ’’ہدایتکاروں‘‘   اور ’’ تربیت کاروں‘‘ نے یہی پڑھا رکھا ہے کہ وہ دین کی خدمت کررہے ہیں۔ افغانستان میں ’’اسلام کا جھنڈا لہرانا‘‘ ہمارا تو حق ہے‘ کابل کو فتح کرکے ہی پاکستان کو بچایا جاسکتا ہے۔ افغانستان کی حکومت پاکستانی حکومت کے ماتحت ہوگی تو اس علاقہ میں امن ہو جائے گا ….. اب جبکہ ….. پرانی سیاست گری خوار ہے ….. ہماری پرانی پالیسیاں غلط

کررہی ہیں Backfire ثابت ہوچکی ہیں  

  تو ہمیں خود اپنا ذہنی اور فکری قبلہ بھی درست کرنا اور اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے ان ’’مجاہدین‘‘ کو بھی بتانا ہے کہ ہم غلط تھے ہماری سوچ غلط تھی ہماری حکمت عملی خام تھی ان لوگوں میں زیادہ لوگ اپنی سوچ کے مطابق دین سے مخلص لوگ ہیں تاہم ان کی آنکھوں پر جہالت کی جو پٹی ہم نے خود باندھی تھی اس کو اتارنا ضروری ہے لیکن جب تک ہم خود اپنی غلطی نہیں مانیں گے یہ لوگ بھی نہیں مانیں گے وہ ضرور آپ سے پوچھیں گے کہ آپ  اگرکل غلط تھے تو آج کیسے درست ہوگئے؟ ….. اس کا جواب آپ کو دینا ہوگا، انہیں حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا، اپنی غلطی کو تسلیم کرنا ہی ہوگا اور جب آپ  یہ کام خلوص نیت اور ایمان کے جذبے سے کریں گے تو گتھیاں سلجھ جائیں گی۔ جب آپ ان کو بتائیں گے کہ صرف گلبدین حکمت یاراوربُرہانُ الدین رَبانی  ہی مسلمان نہیں‘ کرزئی کی حکومت میں شامل پروفیسر عبدالرسول سیاف  اورپروفیسرصبغت اللہ مجددی بھی مسلمان ہیں پھر حامد کرزئی بھی زندگی کا زیادہ عرصہ آپ کے ہاں ہی گزار چکا اور آپ لوگوں کا ہی پروردہ ہے تو یہ لوگ آپ کی بات ضرور مانیں گے۔ یہ پہلا گروپ ہی بنیادی طور پر خودکش بمباروں اور دہشت گرد بچوں کا نظریاتی قبلہ ہے۔ اس گروپ کو قائل اور مائل کرلیا جائے تو وہ خود ہی معصوم بچوں کو آلۂِ کار بنانے سے رک جائیں گے اور تشدد کی اس خوفناک لہر میں یقینا کمی واقع ہوجائے گی۔

ان سارے لوگوں میں سب سے زیادہ خطرناک لوگ ان کارروائیوں کے وکیل ہیں جو بظاہر دہشت گرد نہیں لیکن اندر سے پکے دہشت گرد ہیں قوم کو گمراہ کرتے‘ ابہام میں مبتلا کرتے

Confuseاور

کرتے ہیں۔ دین کا جُبّہ پہن کر دین کا ستیاناس کررہے ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے امریکہ اور بھارت دشمنی کا دن رات واویلا کرتے ہیں حالانکہ معذرت کے ساتھ یہی لوگ ہیں جو عملی طور پر ان دونوں طاقتوں کے ایجنٹوں کا کام کررہے ہیں گول مول باتیں کرکے‘ لَفّاظی کرکے حقائق کو توڑ موڑ کے، سچ کے ساتھ جھوٹ کو ملا کے لوگوں کو گمراہ کرتے اور ان کے دینی جذبات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نقل و حرکت پر بھی پابندی ہونی چاہئے اور زبان و بیان پر بھی۔ یہ اُن فرقہ پرست مولویوں سے کہیں زیادہ خطرناک لوگ ہیں جن پر محرم الحرام کے دوران مختلف علاقوں اور اضلاع میں داخلے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ سو اگر ان لوگوں کے کھلے عا م پھرنے  اور پراپیگنڈے پر روک لگ جائے تو معاملات یکدم بہتر ہونے لگیں گے۔

MasterMind اب رہے ان ساری کارروائیوںکے  

تو اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو کہ پاکستان کے تمام دشمن اکٹھے ہوچکے ہیں اَلکُفرُ مِلِّۃُ وِِِاحِدۃ ….. تمام غیر اسلامی طاقتیں ایک قوم ہیں وہ یہود ہوں یا ہنود وہ بھارت اور امریکہ ہو یا اسرائیل کسی پاکستانی کو ان سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن جب تک ہم صرف اُن کی مذمت کرتے رہیں گے لیکن خود اُن کے بازوؤئے شمشیر زن بنتے رہیں گے ہمارا معاملہ حل نہیں ہوگا۔

فوج کے پاس اس وقت خودکش حملوں کے لیے تیار جو 84 بچے موجود ہیں اگر ان کو سامنے لاکر قوم کو حقائق بتائے جائیں تو سب کا بھلا ہوگا اِن میں کوئی بھارتی ہے نہ کوئی امریکی یا یہودی سب مسلما  ن ہیں‘ مسلمانوں کے ہی بچے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ صرف قبائلی نہیں بہت سے دوسرے بھی ہیں بلکہ سب سے بڑھ کرشا ید پنجابی ….. سرگودھا میں پکڑے ہوئے نوجوانوں کے پاس شہریت بے شک امریکہ کی ہو،ہیں تو مسلمان اور پاکستانی ہی، ان کے چہرے مہرے سے نہیں پتا چلتا کہ کہاں پیدا ہوئے اور کہاں پلے بڑھے؟ کس کس مدرسے سے تربیت حاصل کی اور کس کس مولوی نے انہیں ’’جہاد‘‘ کی یہ تشریح پڑھائی جس پر عمل کررہے ہیں۔ کس نے انہیں پاکستان میں تخریب کاری پر اکسایا اور کس نے فوجیوں کو نشانہ بنانے کو اسلام کی خدمت قرار دیا؟؟

بہرحال اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم اپنے مرض کو تسلیم کرلیں‘ آئینہ کو جھٹلانے کے بجائے

Denial اپنے چہرے کو درست کرلیں۔ حالتِ انکار یا

کی کیفیت سے نکلیں ….. فوج بھی پرانی غلطیوں سے توبہ کرے ، اعادہ نہ کرنے کی قسم کھائے اور اس کے تربیت یافتہ مولوی بھی باز آجائیں ….. جو آپ کے جانے پہچانے دشمن اور بدخواہ ہیں۔ ان سے نیکی کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی صفوں میں گھسے ہوئے ان کے ایجنٹوں کا صفایا کردیں۔ بھارت کو ضرور برا بھلا کہیں لیکن ان کے آلہ   ٔکار بننے والوں کی توصیف بھی نہ کریں کیونکہ یہ لوگ اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ہمارے اُس سے بھی بڑے دشمن ہیں۔ چھپا ہوا دشمن کھلے دشمن سے ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے ….. قرآن کی سورۃ الفتح کی آخری آیت کے آغاز میں کہا گیا ہے مُحَمَّدُالرَّسُولُ اللہ وَالَّذِینَ مَعَہ اَشِدَّائُ عَلَی الکُفَّارُ رُحَمَا ئُ بَینَھُم کہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی سب کے سب کفار کے ساتھ سختی کرنے والے اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیں یعنی دوسرے لفظوں میں جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ سختی کرتے اور کفار کے آلۂِ  کار بنتے ہیں ان کا نہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق ہے نہ ان کے ساتھیوں سے۔ کسی کو اچھی لگے یا بری بات یہی سچ ہے اور یہی اس مسئلے کا حل۔ باقی رہے خود کش حملے تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا میں کہیں بھی خودکش حملے آخرکار کامیاب نہیں ہوئے۔ جاپانیوں نے آغاز کیا لیکن امریکہ سے ہار گئے۔ تاملوں نے حدکردی لیکن شکست مقدر بنی۔ ہمارے ہاں بھی ان حملوں کا مقدر یہی ہے۔ یہی تاریخ میں بھی لکھا ہوا ہے اور یہی تقدیر میں بھی۔۔۔۔آخر میں دو شعر منیرنیازی کے      ۔۔۔

ہلاکت خیز ہے اُلفت مِری ہر سا نس خونی ہے

اِسی باعث یہ دنیا دل کی قبروں سے بھی سُونی ہے

اُسے زہریلی خوشبوؤں کے رنگیں ہار دیتا ہوں

میں جس سے پیار کرتا  ہوں اُسی کو مار دیتا ہو ں  

٭٭

 

 

Share