اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

کس کی جیت ،کس کی ہار؟ جولائی 8, 2007

Monday, July 08, 2007
 

کس کی جیت ،کس کی ہار؟

 

حکومتی بولی بولنے والوں  کو نہ جانے کس طرح الہام ہوا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں  میں  بہنے والے بے گناہوں  کے خون سے جنرل پرویزمشرف کا امیج بہت بہتر ہوگیا ہے اور پاکستان کی سول سوسائٹی میں  ان کی مقبولیت بے تحاشا بڑھ گئی ہے، آپ عام لوگوں  سے مل کر دیکھیں  تو 1971ء میں  سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پہلی بار انہیں  اتنا زیادہ دُکھی پائیں  گي… 1970ء میں  مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود علیہ الرحمتہ اور اُن کے قریبی ساتھی مولانا غلام غوث ہزاروی، جماعت اسلامی کی مخالفت میں  پیپلزپارٹی کے ہمنوا تھے جس پر جماعت اسلامی کے حامیوں نے اُن کے نام سے مولانا کا لفظ ہٹا کر "مسٹر” کا لفظ جوڑ دیا جواباً پیپلزپارٹی کے ترجمان مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ نے مولانا مودودیؒ کا سر اُس وقت کی مشہور ایکٹریس نغمہ کی فلم "انورا” میں  رقص کناں  ایک تصویر پر جوڑ کر نیچے کیپشن لگایا "سُن وے بلوری اَکھاں  والیا” اس پر جماعت اسلامی کے حامی ایک جریدے نے ذوالفقار علی بھٹو کا سر شراب کے مشہور برانڈ VAT69 کی بوتل پر جوڑ کر بدلہ چکایا۔ یہ سارا سیاسی کھیل تھا اور اسی طرح کھیلا جارہا تھا لیکن 16 دسمبر 1971 ء کو جب حکومت اور فوج کے جھوٹے دعوؤں  کا پول کھلا اور افواج پاکستان کے ایسٹرن کمان کے "شیر دل” کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے اپنا پستول اتار کر بھارتی ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے حوالے کیا اور ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کئے تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو پارٹی اور نظریات کے تمام تر اختلافات کے باوجود رویا نہ ہو… کچھ ایسی ہی حالت اب کے ہے۔ ساری کی ساری قوم رنجیدہ ہے ہر شخص مضطرب ہے مولوی برادران کو گالی دینے والے بھی کافی ہیں  اور حکومت پر دشنام طرازی کرنے والے بھی بہت، کچھ کی بانچھیں  کِھل  رہی ہیں  تو کچھ کے آنسو نہیں  رُکنے پا رہے۔ کچھ لوگوں  نے مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید کے ناموں  سے مولانا کا لفظ غائب کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کچھ نے اسلام سے اپنے بُغض کو مولوی برادران کے پردے میں  ظاہر کیا اور کچھ نے  حکومتی کیمپ سے وفاداری کا عہد نبھایا ہے لیکن کیا کوئی بھی موجودہ صورتحال سے خوش ہے؟… اگر نہیں  تو اس ساری صورتحال کے ذمہ دار حکمران کس طرح راتوں  رات عوام میں  مقبول ہوگئے ہیں ۔ عوام کو نہ 1971 ء کے "غدار” بھولے ہیں ، نہ 2007 ء کے "محب وطن۔”
وہ کہہ رہے ہیں  مُحبت نہیں  وطن سے مجھے
سکھا رہے ہیں  مُحبت مشین گن کے ساتھ
بغیر کسی لڑائی میں  فتح حاصل کئے پاکستانی جنرل ایوب خان کی طرح ازخود فیلڈ مارشل بننے والے نہیں ، بلکہ اصلی فیلڈ مارشل اور برطانوی فوج کے ہیرو فیلڈ مارشل ارل کچنر کا کہنا ہے "جنگ خطرات مول لینے کا نام ہے،… آپ یہ کھیل ہر بار نہیں  جیت سکتے اور یہ بات بااختیار لوگوں  کو جتنی جلدی معلوم ہوجائے اُتنا ہی بہتر ہوتا ہے”… لگتا ہے ہمارے کمانڈروں  نے یہ قول کبھی نہیں  پڑھا حالانکہ اِسے جدید دور کے حربی نصاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ نہتے لوگوں  پر گولیاں  چلا کر، معصوم بچوں  پر بمباری کرکے، بے گناہ آبادیوں  کو ٹینکوں  تلے روند کر میڈل لگا لینا ایک بات ہے۔ دشمن سے جنگ لڑ کے جیتنا دوسری… جبکہ اپنے ہی ہاتھوں  سے بنائے گئے "غازیوں ” سے لڑنا بالکل تیسری… جن لوگوں  نے کبھی کسی جنگ کا انجام دیکھا ہی نہ ہو انہیں  کیا پتا کہ ایسے کھیلوں  کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
پَندار کے خُوگر کو ناکام بھی دیکھو گے
آغاز سے واقف یہ اَنجام بھی دیکھو گے
اس بے وقوفانہ آپریشن سے جنرل پرویزمشرف نے مقبولیت کیا حاصل کرنی تھی یہ ضرور ہوا ہے کہ نفرت کے نشان سرکاری مولوی برادران  پہلی بار عوامی ہمدردی حاصل کررہے ہیں ۔ اگر یہ ابھی تک "نُورا کشتی” نہیں  ہے جیسا کہ لال مسجد سے ہونے والے ٹیلی فونک مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک کسی نے فون تک جام نہیں  کئے تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے انکار کے بعد مولانا عبدالرشید غازی اپنے طرز عمل سے "سلسلہ انکاریہ” کے فرد قرار پارہے ہیں  اور حکومت کی حماقتوں  سے ایک ہیرو کے طور پر سامنے آرہے ہیں  اب وہ پکڑے جائیں  یا مارے جائیں  کچھ فرق نہیں  پڑتا۔ چیف جسٹس کے معاملہ کی ہینڈلنگ میں  حکومت خود مِس ہینڈل ہو گئی۔ مولویوں  کی ہینڈلنگ تو بہتر ہونی چاہئے تھی کہ کار بھی اپنی تھی اور ہینڈل بھی اپنا لیکن چھ دنوں  کے دوران درجنوں  بے گناہوں  کے خون نے حکومتی منصوبہ سازوں  کی حکمت عملی کی ساری قلعی بالکل کھول کر رکھ دی ہے۔ عموماً دشمن کے مقابلے میں  ون ٹو ون یا زیادہ سے زیادہ ایک کے مقابلے میں  دو کی عددی قوت فتح کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جدید ترین عسکری ذرائع اور حربی آلات کی موجودگی اور ایک کے مقابلے میں  دس، چھ دن بعد بھی عوام کے اعصاب کا امتحان لے رہے ہوں  تو اسے فتح کوئی نہیں  مانے گا۔ حکومت نے آج تک انسانی جانوں  کا کتنا احترام کیا ہے جو اب اس کے دعوے کررہی ہے۔ لال مسجد کے لوگوں  کے پاس اسلحہ کی غیرمحدود صلاحیت نہیں  ہوسکتی جبکہ آپریشن کرنے والے جدید ترین آلات اور غیر محدود جنگی ہتھیاروں  سے لیس ہیں  ان کی شفٹیں  بھی بدل رہی ہیں  جبکہ دوسری طرف بھوک اور پیاس کے ڈیرے ہیں  آپ اتنے "پکے مسلمان” ہیں   کہ خود وہاں  کھانا بھیجتے رہے لیکن  بچوں  کیلئے کھانا لیجانے والوں  کو گرفتار کرادیتے ہیں ۔ مقابلہ بہت دیر نہیں  چلے گا، چل بھی نہیں  سکتا… لیکن حکومت جس فتح کے خواب آنکھوں  میں  سجائے میدان میں  اُتری تھی وہ بہرحال پورے نہیں  ہوئے کہ مقابل بھی ان کے ہی تربیت یافتہ ہیں ۔ لال مسجد کے مولویوں  نے تو راشن پانی کا انتظام کر رکھا ہو گا لیکن اس علاقے کے لوگوں  کا کیا قصور ہے کہ اپنے ہی علاقے میں  محصور، اپنے ہی گھروں  میں  قید اور اپنے ہی خون کے گھونٹ پینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں ۔…  حکومت جیت کر بھی شکست سے دوچار جبکہ حکومت مخالف تحریک یا لندن کی اے پی سی کو اس آپریشن سے نقصان نہیں  فائدہ ہی ہوا ہے،  جنرل مشرف کے حامی بھی اب انہیں  مشورہ دے رہے ہیں  کہ یا بینظیر بھٹو کے ساتھ معاملہ کر لو یا مارشل لاء کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جنرل صاحب کی خواہش تو یہ ہو گی کہ بے نظیر سے معاملہ ہو جائے لیکن بے نظیر ایسا کیوں  کریں  گی؟ لے دے کے جنرل صاحب کو کسی نئے جرنیل پر انحصار کرنا ہو گا لیکن نیا جرنیل ان کا کام کیوں  کرے گا؟  ادھر عام لوگ بھی سوچ رہے ہیں
مِرے خیال میں  اَب تَھک چُکے ہیں  ظالم بھی
ڈھلے گی ظُلم کی شَب دِیپ آس کا نہ بُجھا
ہم یہ مان لیتے ہیں  کہ صدر جنرل پرویزمشرف کو اسلام آباد میں  خون بہانے پر یقیناً امریکہ سے توصیف ملے گی کہ جو کام وہ خود نہیں  کرسکتا تھا وہ ہمارے حکمران کررہے ہیں  لیکن اب جب انہوں  نے تفتیش کیلئے بنائی گئی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( JIT) میں  اپنی ایجنسیوں  کے لوگوں  کو شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے تو ہمارے حکمران انہیں  کیا جواب دے سکیں  گي… اگر انکار کرتے ہیں  جس کی بظاہر ان میں  ہمت نہیں  تو ان کی "نوکری” خطرے میں  پڑ جائے گی اور اگر اجازت دے دیتے ہیں  تو سارے راز کھل جانے کا اندیشہ ہے سو کسی طرح سے راہ فرار نہیں  مل رہی۔ وزیرداخلہ آفتاب شیر پاؤ اگر اپنے ڈرائیور شاہد سے نجات حاصل بھی کرلیں  جو مولوی برادران کا برادر نسبتی بتایا جاتا ہے تو انہیں  یہ کیسے پتا چلے گا کہ ان کے یا دوسرے بڑے بڑے لوگوں  کے اردگرد اور کون کون ایسے ہی لوگ موجود ہیں ۔  رہا جنرل صاحب کا الٹی میٹم کہ لال مسجد والے باہر آ جائیں  ورنہ مارے جائیں  گے تو اب یہ ڈرامہ کافی لمبا ہو گیا ہے۔ عملاً یہ ٹی وی کا ڈرامہ بن گیا ہے جس کی قسطیں  "عوام کے پرزور اصرار پر” بڑھائی جا رہی ہیں  اور جب "ڈائریکٹر” چاہیں  گے ڈرامہ بند ہو جائے گا۔   کیا جنرل صاحب اتنے مہینے انتظار کرتے رہے ہیں  کہ ان کے پروردہ مولوی وہاں  اپنے حامیوں  کو بھی اکٹھا کر لیں  اور اسلحہ بھی۔   اب تک جتنے لوگوں  کو جہاں  جہاں  بھی مارا گیا۔ کتنوں  کو وارننگ دی گئی؟  اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں  کہ جب تک ایک عورت یا ایک بچہ بھی مسجد میں  موجود ہے آپریشن نہیں  ہو گا یعنی نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی یا پھر "سوپ ڈرامہ” کی کئی قسطیں  ابھی باقی ہیں ۔…  مارنے کے لئے وقت آج کا بہتر ہے یا کل بہتر تھا اس کا فیصلہ تو تاریخ  کرے گی  یا جنرل صاحب  کیونکہ ہم لوگ تو موت نہیں  زندگی کی بات کرتے ہیں  تاہم   جنرل صاحب جو چاہے کر لیں  ان کے لئے اب کوئی وقت بھی بہتر نہیں ۔ اللہ اس ملک، اس قوم اور ہم سب پر رحم کري… آخر میں  اقبالؒؒ کے تین شعر
بے اشکِ سحر گاہی تقویمِ خودی مُشکل
یہ لالۂِ پیکانی خوشتر ہے کنارِ جُو
صَیّاد ہے کافر کا نَخچیِر ہے مومن کا
یہ دیرِ کُہن یعنی بُت خانۂِ رنگ و بُو
اے شیخ! امیروں  کو مسجد سے نکلوا دے
ہے اُن کی نمازوں  سے محراب ترش اَبرو

 

تبصرہ کریں