اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

اَیسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو جون 29, 2007

Friday, June 29, 2007
 

اَیسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو!!

 

روشن خیال کون ہے وہ مولوی جو اپنی بیوی کو ایک لاکھ روپے حق مہر دیتا، اپنی بیٹیوں  کو جائیداد میں  حصہ دیتا، کسی کی مخالفانہ تقریر کو ہنس کر ٹال دیتا، گالی کے جواب میں  حُسنِ سلوک کرتا اور منبرِ رسولؐ سے صرف اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات کرتا ہے یا وہ وزیر جس کا باپ تو ایک شریف جِلد ساز تھا لیکن اُس کے بھائی، بھائی کی حکومتی طاقت کے زور پر کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں ، جو اپنی وزارت کے دوران ایک غیرملکی اور غیرمحرم خاتون کو اپنے گھر میں  قید رکھتا، اُس سے زور زبردستی کرتا، اُس کو مردہ حالت میں  ہسپتال لے کر آتا، حکومت اُس کی پشت پناہی کرتی، مردہ خاتون کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں  واضح گھپلے ہوتے اور بنیادی شرائط ہی پوری نہیں  کی جاتیں ، اِس بات کا تعین بھی نہیں  کیا جاتا کہ خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں ؟ وہ کہیں  حاملہ تو نہیں  تھی یا اُس کا اسقاط تو نہیں  کرایا گیا تھا۔ امریکی ماہرین مذکورہ آٹوپسی رپورٹ کو واضح طور پر ناقص اور بے کار قرار دیتے ہیں ، کئی دن اسے گرفتار ہی نہیں  کیا جاتا، عدالت کے حکم پر گرفتاری کے اگلے ہی دن اُسے فوجی ہسپتال سے دل کی بیماری کا سرٹیفکیٹ مل جاتا اور وہ ہسپتال میں  داخل ہو جاتا ہے۔ کیا ہمارا قانون جو راہ چلتے میاں  بیوی کا منہ سونگھتا  اور اُن سے نکاح نامے بھی طلب کرتا ہے، اُسے وزیر صاحب کے معاملے میں  کسی "اَیسی وَیسی” بات کا شک بھی نہیں  ہوا۔ کیا یہ محض حبسِ بے جا کا مقدمہ ہے یا سارے کام باِلرَّضا ہو رہے تھے اور تحفظ حقوقِ نسواں  آرڈیننس آنے کے بعد یہ کوئی جرم ہی نہیں ۔ اگر یہی روشن خیالی ہے تو تُف ہے ایسی روشن خیالی پر۔
ہم دعویٰ کرتے ہیں  کہ اسلام دنیا کا سب سے روشن خیال دین ہے جس نے پہلی بار جاہلانہ رسوم کو چیلنج کیا۔ انسان کو انسان اور پتھر کے سامنے جُھکنے سے روکا، کعبہ کو بُتوں  سے خالی کیا، بچیوں  کو پیدا ہوتے ہی دفن کرنے کی روایت کو دفن کر دیا، بیٹیوں  کی عِزّت اور تکریم شروع کی، عورت کو مہر، نان نفقہ، اچھی رہائش، اچھے لباس اور خُلع کا حق عطا کیا، علیحدگی کی صورت میں  بھی عورت کو دیئے گئے تحفے، تحائف اور مال و دولت واپس نہ لینے کا حکم دیا، تہمت کو جرم قرار دیا، بدکاری کی صورت میں  عورت کا پردہ رکھنے کی ہدایت کی،  نجی زندگی میں  دخل اندازی سے روکا، چادر اور چار دیواری کا تصور روشناس کرایا، تَجسُّس اور گھر میں  جھانکنے سے منع کیا، ریاست اور فرد کے حقوق کی تشریح کی، عورت کے ساتھ مرد کو بھی غضِّ بَصر اور شرم گاہوں  کی حفاظت کی تلقین کی، وراثت میں  عورت کا حق مقرر کیا، مخالف مذاہب کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا، تہذیبوں  اور مذاہب کے تصادم کو روکا، مخالف اَدیان کے انبیاء پر ایمان مسلمانوں  کے ایمان کا حصہ قرار پایا، بدلے کے مقابلے میں  معافی کا کلچر متعارف کرایا، فرد کی آمریت کو شُورائی جمہوریت سے تبدیل کیا، عوام کی اکثریت کے فیصلے کو سچ اور اللہ کا فیصلہ قرار دیا، وراثتی حکومت اور آمریت کی ممانعت کی، سرمایہ داری کو حرام قرار دیا، ضرورت سے زیادہ استعمال کی ہر چیز صدقہ کرنے کو تقویٰ کی بنیاد قرار دیا، مساوات، رواداری، قربانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کو شعار بنایا غرضیکہ آج کی جدید دنیا میں  کوئی ایسا بنیادی حق نہیں  جو نبی آخر الزماں ؐ نے کائنات کو تفویض نہ کیا  اور سارے حقوق پر عمل کر کے نہ دکھایا  ہو۔… لیکن ہم آج کے محکوم اور مغلوب مسلمان نہ جانے کیوں  مغرب کی چکا چوند سے آنکھوں  کو خیرہ کئے جا رہے ہیں ۔ بجائے اِس کے کہ اپنے اصولوں  پر قائم رہیں  اور اُن کا دفاع کریں  ہمارا طرزِ عمل دفاعی ہو گیا ہے۔ مُلک کی جغرافیائی سرحدوں  کا دفاع نہیں  کر پا رہے قوم کی نظریاتی حدود اور عقیدے کا کیا کریں  گے؟ روشن خیالی سے مراد مخلوط محفلوں  میں  بغلگیر ہونے اور ذرائع ابلاغ سے فحاشی، عریانی اور جنسی جذبات بھڑکانے والے پروگراموں  کی تشہیر کو لینا، چینی مساج کرنے والی لڑکیوں  کا اسلام آباد کے بعد لاہور کو بھی ہدف بنا لینا ، رواداری کی آڑ میں  منکرات کو فروغ دینا  روشن خیالی  اور رواداری نہیں ، کنجرپَن اور بَدکاری ہے۔
دین نے صرف ایک بات پر اصرار کیا اور وہ یہ کہ سارا کُفرمِلّتِ واحدہ ہے۔  (اَلْکُفْرُ مِلَّۃُ وَّاحِدَۃ) اُس سے دوستی نہ کی جائے لیکن ہم عجیب مسلمان ہیں  کہ اپنوں  کو مار رہے اور دشمنوں  سے پیار کی پینگیں  بڑھا رہے ہیں ۔ ہندو پنڈت آج بھی اُس مندر کو دھونے کا حکم دیتے ہیں  جس سے کسی مُسلے (مسلمان) کا گزر ہو جائے، نیٹو افواج کے ترجمان کہہ رہے ہیں  کہ اُنہوں  نے قبائل پر بمباری سوچ سمجھ کر اور باِلاِرادہ کی، امریکی کانگریس کے ارکان ڈاکٹر قدیر سے براہِ راست ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں  کہ اُن کے بقول بے نظیر بھٹو دور میں  کوریا سے حاصل کیا جانے والا میزائل پروگرام فی الاصل اسلام آباد اور پیانگ یانگ کے درمیان ٹیکنالوجی کا تبادلہ تھا۔ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی دے کر میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی اور بقول اُن کے دونوں  باتیں  امریکہ کے لئے شدید خطرہ ہیں ۔
جواباً وائٹ ہاؤس کہتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو لگام دی جا چکی ہے۔… اور  ہمارا طرز عمل کیا ہے کہ بھارت سے دوستی کرنے کے لئے مرے جا رہے ہیں  حالانکہ یہ بات اب طَے ہے کہ نہ پاکستان بھارت کو اور نہ بھارت پاکستان کو ختم کر سکتا ہے۔ آئندہ تاریخ میں  کسی جنگ کا بھی کوئی امکان نہیں ، امریکیوں  کے کہنے پر ہماری فوج بے دریغ اپنے لوگوں  پر بمباری کرتی ہے لیکن سیلاب میں  ہلاک، تباہ اور بے گھر ہونے والوں  کو طفل تسلیوں  کے سوا ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ۔ نتیجتاً بلوچ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بمباری کے لئے تو آپ کے پاس ہر وقت جہاز اور امریکی ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں  بچانے کے لئے کیوں  نہیں ؟  اب بھی فضائی جائزوں  کے نام پر پکنک کے لئے ہیلی کاپٹر موجود جبکہ ریلیف والے جہاز موسم ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کا نمائندہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے سیلاب کی صورت حال جاننے کيلئے رابطہ کرتا ہے تو وہ آرام فرما رہے ہوتے ہیں  کہ اسمبلی میں  بھی اکثر سوئے ہوئے ہی دیکھے جاتے ہیں  لیکن بیان اُن کا یہ آ رہا ہے کہ اپوزیشن امدادی سرگرمیوں  میں  حصہ لے۔ گورنر سرحد کہہ رہے ہیں  کہ جرگہ سسٹم ناکام ہوا تو انتہائی قدم اٹھایا جائے گا۔ کیا کوئی انتہائی قدم ابھی باقی ہے؟ بلامبالغہ ہزاروں  نہیں  تو سیکڑوں  بے گناہ ہماری اپنی گولیوں  اور بموں  کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ کیا اب ساری مخلوقِ خدا کو تہ تیغ کر دیں  گے یا قبائل کا صفایا کر دیں  گے حالانکہ یہ کام تو انگریز ڈیڑھ سو سال پہلے بھی نہ کر سکا تھا۔… ہماری علاقائی خودمختاری کو چیلنج کیا جاتا ہے اور نیٹو فورسز سے زور دار احتجاج تک نہیں  کیا جا رہا۔ ٹھنڈی ٹھار سی گفتگو کی جا رہی ہے۔ "آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ”… "ورنہ کیا؟”  "ورنہ ہم اِسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں  گے۔” اسلام آباد میں  ایک مولوی کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے پریس کانفرنس کرتا ہے اور ہماری حکومتی عملداری کی غیرت نہیں  جاگتی۔ نہتے لوگوں  کو ڈراوے دیئے جا رہے ہیں ۔
اپنوں  پہ ستم غیروں  پہ کرم، اَے جانِ جہاں  یہ ٹھیک نہیں … معاف کیجئے اگر اپنوں  کی پتلونیں  اُتروانا اور مخالفوں  کے سامنے پتلون اُتار دینا روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے تو ایسی روشن خیالی اور اعتدال پسندی پر ہزار لعنت۔  اگربرہنہ ٹانگوں ،برہنہ نافوں ، برہنہ سینوں  کا مقابلہ تہذیب ہے، مُجرے، بوس وکنار، غیرمردوں  اور عورتوں  کی جپھیاں ان کے نزدیک روشن خیالی ہیں  توخود جو چاہے کریں ۔ عوام کو اِن پر مجبور نہ کریں ۔ روشن خیالی عمل اور سوچ کا نام  ہے، ہاتھ اُٹھا کر مارے جانے والے نعروں  اور گلے پھاڑ پھاڑ کر کی جانے والی تقریروں  کا نہیں ۔ نہ تو کوئی عورت بُرقع پہننے سے رُجعت پسند ہو جاتی ہے نہ کوئی رانیں  دکھا کر ترقی پسند۔  حسینؓ کی موت یزید کی زندگی سے لاکھ درجہ برتر، سید احمد شہیدؒ  اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شکست جنرل ڈائر کی فتح سے ہزار درجہ اُولیٰ اور ٹیپو سلطان جیسے شیر کی ایک دن کی زندگی  مخالف گیدڑوں  کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ کیا ہمارے سروں  پر مُسلّط حکمران نہیں  سوچتے کہ  63/62 کے ریفرنس آپ کی روشن خیالی نہیں  جہالت، تہذیب نہیں  بدتہذیبی کا ثبوت ہیں  اور رہے عوام تو "ہم لوگ جو اَب تک زِندہ ہیں  اِس جِینے پر شرمندہ ہیں ” کہ بقول اقبالؒ
اے طائرِ لاہُوتی اُس رزق سے مَوت اچھی
جس رِزق سے آتی ہو پرواز میں  کوتاہی

 

1 Responses to “اَیسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو”

  1. تحریم Says:

    السلام و علیکم
    ٓپ کے بلاگ مین کافی کچھ ہے پڑھنے کو
    ابھی جتنا پڑھا ہے کم لگا ہے امید ہے جلد پورا بلاگ پڑھ ڈالوں گی


تبصرہ کریں