اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

حضورِ رسالت مآب ﷺمیں جون 26, 2007

Tuesday, June 26, 2007
 

حضورِ رسالت مآب ﷺمیں

 

پیرِ رومؒ کا کہنا ہے
مُرغَکِ نارُستہ چوں  پَرّاں  شَوَد
طَعمِۂ ہَر گُربۂ دَرّاں  شَوَد
اقبالؒ نے اِس فارسی شعر کو اردو میں  اِس طرح بیان کیا
جو دُونیٔ فطرت سے نہیں  لائقِ پرواز
اُس مُرغَکِ بے چارہ کا انجام ہے اُفتاد
قبائل میں  بے گناہوں  کا خون اِتنا ارزاں  ہے کہ کبھی تصور بھی نہیں  کیا جا سکتا تھا۔ ہر بار ہم نے اپنے ہی بھائیوں  کا خون اپنے سر لے لیا لیکن اب کی بار ہمارے "دوستوں ” نے کہا کہ کارروائی ہم نے کی اور اِس کے لئے پاک فوج کا تعاون حاصل کیا گیا تھا جبکہ پاک فوج والے کہتے ہیں  کہ "ایسا نہیں  اور اِس کے سوا ہم اور کچھ نہیں  کہیں  گے۔” لبنان جیسا بے حیثیت ملک بھی اسرائیل کے جواب میں  کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم جیسے بے حمیّت پتا نہیں  کِس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا فوج پر کھربوں  روپے کے اخراجات یہی دن دیکھنے کے لئے کئے جا رہے اور گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے والوں  نے اِسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ حضورؐ کے دادا عبدالمطّلب نے اَبرہہ سے اپنے اُونٹ واپس مانگے اور کہا کہ خانہ کعبہ جس کا گھر ہے وہ اُس کی خود حفاظت کرے گا۔ ہم ایک ذلیل شاتمِ رسول کو "سَر” کا خطاب ملنے کے معاملے پر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں  اور جو سرزمین اُسی رسولؐ کے نام پر حاصل کی گئی تھی اُس کی سرحدوں  کو پامال کرنے پر ہماری آنکھ میں  ندامت کا ایک آنسو بھی نہیں  آتا اور بے کار تاویلیں  پیش کر رہے ہیں ۔ حضورِ پاکؐ یہ سب کچھ دیکھ کر کیا خون کے آنسو نہیں  رو رہے ہوں  گے کہ کیسی قوم سے پالا آن پڑا ہے۔ اپنے گھر کی حفاظت تو کر نہیں  سکتے میری عزت کی خاک حفاظت کریں  گے!!
وہ نبیؐ جو ایک بے سہارا بچے کی غُربت پر بھی تڑپ اٹھتے تھے جب اُنہیں   پتا چلا ہو گا کہ منڈی زوار نامی بستی میں  امریکی حملے کے دوران سارے نَو کے نَو اہل خانہ کے مارے جانے پر اُنؐ کے ایک ماننے والے قبیلہ گنگی خیل کے 70 سالہ پخاور خاں  نے خودکشی کر لی ہے تو اُنؐ کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟ جب اُنہوں ؐ نے دیکھا ہو گا کہ اُنؐ کے ماننے والے، انؐ کے نام پر اُنہی ؐ کے اُمَتیّوں  پر کفر کے فتوے لگا، اور خود اُنؐ کے احکام کی دھجیاں  اڑا رہے ہیں  تو اُنہوں  ؐ نے دائیں  بائیں  لیٹے اپنے دوستوں  ابوبکرؓ اور عمرؓ سے کیا بات کی ہو گی؟ جب اُنؐ کی آنکھوں  کے سامنے ایک ملعون کو سر کا خطاب دینے پر سیاسی ڈرامے رچانے والے اصل گنہ گار یہودیوں  اور اُن کی جائے پناہ اسرائیل سے دوستی کی پینگیں  بڑھا رہے ہوں  گے تو اُنہوں  ؐ نے کیا یہ نہیں  سوچا ہو گا کہ میرے کیسے پیروکار ہیں  کہ ان کو بتایا بھی تھا کہ یہودی تمہارے خیرخواہ نہیں  ہو سکتے پھر بھی ان کے دل سے اسرائیل کی مُحبت نہیں  نکل رہی۔… جب اُنہیں  ؐ بتایا گیا ہو گا کہ اُنؐ کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان میں  اُنؐ کے ماننے والوں  کو کفار کی فوج نے بمباری کر کے شہید کر دیا اور مسلمان ہونے کے کچھ دعویداروں  نے اُن کی معاونت کی تو اُنہوں  ؐ نے ہمارے اسلام کے متعلق کیا رائے قائم کی ہو گی؟
 اتنی بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اُنؐ  کو ہر وقت ہماری فکر رہتی تھی۔ اپنے انتقال کے وقت بھی اُنہوں ؐ  نے اپنے رب سے صرف یہ گارنٹی مانگی تھی کہ اُنؐ کے بعد اُنؐ کی اُمّت کو رسوا نہیں  کرے گا، لیکن یہ گارنٹیاں  کیا کریں  جب اُمّت خود ہی رسوا ہونے پر تُل جائے ۔… کراچی میں  ترقی کے گیت گائے جا رہے ہوں  اور ایک ہی بارش اڑھائی سو سے زائد لوگوں  کو نوالہ بنا لے، "دارالاسلام” کے سب سے بڑے شہر جس کی ترقی پر سرکار کے بقول اربوں  روپے خرچ کئے گئے ہوں  دو دن میں  کھنڈر کا منظر پیش کرے اور جس کو بجلی فراہم کرنے کے نام پر وہاں  بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے کو اربوں  روپے سستا ایک سرمایہ دار کو فروخت کر دیا گیا ہو، اُس شہر کا 70 فیصد حصہ بجلی سے محروم ہو جائے۔ جہاں  جن سائن بورڈوں  کو لگانے کے لئے لاکھوں  روپے رشوت لی جاتی ہو وہی لوگوں  کے لئے موت کا پیغام بن جائیں  اور دوسرے صوبوں  میں  یہی کھیل جاری ہو اور جہاں  تباہی کے بعد پھر سے غریبوں  کی جیبوں  پر ڈاکہ مارنے کے لئے ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہو۔
کیا میرے آقاؐ نہیں  جانتے کہ یوٹیلٹی سٹوروں  پر کس طرح کا مال کس ریٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے اور ہمارے وزیراعظم وہاں  کھڑے ہو کر جب "پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگواتے ہیں  تو وہ خود کو پاکستانی قوم کے حالات سے کتنا بے خبر ظاہر کرتے ہیں ۔ اُنہیں  کیا پتا کہ نبیؐ کے ایک غلام، خلیفۂِ دوم نے تو کہا تھا کہ اگر نیل کے کنارے ایک کُتا بھی پیاس سے مر گیا تو عمرؓ اس کا جوابدہ ہو گا۔ یہاں  روزانہ کتنے، کُتے نہیں ، اشرف المخلوقات انسان بھوک اور غربت کے ہاتھوں  جان دے دیتے ہیں  اور ہمارے وزیراعظم ان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کی فرمائش کر رہے ہیں ۔ جہاں  کے وزیراعظم نے کسی سرکاری یوٹیلٹی سٹور سے باہر راجہ بازار تک جانے کی بھی زحمت نہ کی ہو۔ جہاں  کے برسرِاقتدار اور بااثر افراد اپنی تھکاوٹ بھی چینی لڑکیوں  سے دور کراتے ہوں  اور جہاں  کے وزیر مذہبی امور کو دین کی تبلیغ کے لئے یا تو انگلینڈ پسند ہو یا پھر تھائی لینڈ۔
میرے ماں  باپ اور اولاد اُنؐ پر قربان ہوں ۔ اُنہوں ؐ نے منافقت کو کُفر سے بڑا جرم قرار دیا اور منافق کی چار نشانیاں  بھی بتا دیں ۔ کیا وہؐ دیکھ نہیں  رہے ہوں  گے کہ ہمارے حکمرانوں  میں  ساری نشانیاں  پوری ہو چکیں ۔ خود انتخابی مہم کے لئے نکل پڑے ہیں  اور مخالفوں  کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔… اُن کو پتا ہے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں  دو تہائی اکثریت موجود نہیں  لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے 18 ویں  آئینی ترمیم کا شوشا چھوڑ دیا ہے تاکہ انتخابات میں  کام آئے۔  حالانکہ آئین میں  ترمیم کر سکتے تو سب سے پہلے اپنی وردی کے حق کراتے۔
خود بیرکوں  میں  واپس جانے کا نام نہیں  لے رہے اور وکلاء سے کہہ رہے ہیں  کہ بار روموں  میں  واپس چلے جائیں ۔ خود آئین کی دھجیاں  اڑا کر رکھ دی ہیں  اور قوم سے آئین پر عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔… خود بدلتے نہیں ، قرآں  کو بدل دیتے ہیں ۔
سمجھ نہیں  آ رہا کہ اپنے مَولاؐکے سامنے کیا منہ لے جاؤں  اور کیا درخواست کروں  کہ بَددُعا دینا اُسؐ کا شعار نہیں  رہا اور ہم جیسے بے کَسوں  کے دستگیر بھی صرف وہی ہیں … اُن سے کچھ نہیں  صرف اتنی ہی گزارش کا حوصلہ ہو رہا ہے کہ آپؐ تو خود دُعا کیا کرتے تھے کہ "مولا ہم پر ایسے حکمران مُسلّط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں ۔” (وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا یَرْحَمُنَا)  تو ہمارے ساتھ ایسا کیوں  ہو رہا ہے؟ اے دو جہانوں  کے والی! ہم بے کَسوں  پر نظرِ کرم کر، ہماری غلطیوں  کوتاہیوں  سے درگزر فرما، ہماری حالت پر رحم کر اور اپنے رب سے ہمارے لئے خاص مہربانی کی گزارش کر کہ اب کوئی راستہ سُجھائی نہیں  دے رہا۔ کوئی تدبیر کارگر نہیں  ہو رہی، کسی دوا میں  اثر نہیں  رہا اور کوئی مرہم زخم کو مُندمل نہیں  کر رہا… اے رَبُّ اللْعٰالمِین کے محبوب اور پیارے! خود آگے بڑھ ہمیں  راستہ دکھا، ہماری تدبیریں  کارگر کر، ہماری بیماریوں  کو تندرستی  میں  بدل دے اور ہمارے زخموں  کا خود مداوا بن جا۔ اور آخر میں  اپنے رب سے بھی گزارش، کہ سب سہاروں  کا آخری سہارا بھی وہی ہے اور ہم لوگوں  کا آخری مددگار بھی وُہی
رحم کر اپنے نہ اندازِ کرم کو بُھول جا
ہم تجھے بُھولے ہیں  لیکن تُو نہ ہم کو بُھول جا
خَلق کے راندے ہوئے دُنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں  اب تیرے دَر پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں  بدکار ہیں ، ڈوبے ہوئے ذِلَّت میں  ہیں
کچھ بھی ہیں  لیکن تِرے محبوبؐ کی اُمَّت میں  ہیں
حَق پَرستوں  کی اگر کی تُو نے دِل جوئی نہیں
طعنہ دیں  گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہیں

 

تبصرہ کریں