اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی جون 15, 2007

Friday, June 15, 2007
 

بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی

 

حکومت میں  شامل رہنے کیلئے لوگ کتنے احسان ناشناس اورطوطا چشم ہو جاتے ہیں کہ کل نواز شریف پر صدقے واری ہونے والوں  کو قومی اسمبلی میں  اُن کی تصویر لانے پر بھی اعتراض ہو رہا ہے۔ یہی لوگ ہیں  جو ہر حکمران کو ظِلّ اللّٰہ گردانتے ہیں  اور پھر اس کی قبر کھودنے کے لیے سب سے پہلے پھاوڑا اٹھاتے ہیں ۔ پتا نہیں  اپنے سابق ہونے والي”محبوب حکمران” کی قبر کشی کے لیے اپنی  کَسّی کی آواز اُن کے دل پر بھی کچھ اثر کرتی ہے یا نہیں ؟ مرزا جانِ جاناں  مظہر کی بیاض "خریطۃ الجواہر”کا ایک شعر شاید اِنہی لوگوں کیلئے کہا گیا ہے
صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگراست
خبربگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است
میاں  نواز شریف اگر کانوں  کے کچے نہ ہوں  تو اُن جیسا ہیرا سیاستدان شاید ہی کوئی ہو۔ اُنہوں  نے کس کس کو اور کیا کیا نہیں  نوازا، آج جب اُن کے دستر خوان کی بچی ہوئی روٹی کھانے والے اُنہیں  گالی دیتے ہیں  تو شرم آ نے لگتی ہے پر کیا کریں  کہتے ہیں  سیاست کے سینے میں  دل نہیں  ہوتا۔ نوازشریف نے محض اپنی آنکھ کی شرم میں ایم کیو ایم کے لیڈروں سے اُس وقت صَرفِ نظر کیا جب اِن کے موجودہ سرپرست جنرل پرویزمشرف بطور آرمی چیف حکیم سعید کیس چلانے کیلئے نوازشریف انہیں  فوجی عدالتیں  بنانے کی تجویز دے رہے تھے اگر نوازشریف مان جاتے تو آج جو لوگ اپنے بری ہونے کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں  کسی کرنل کے ہاتھوں  پھانسی پاکر اولاً تو دوسری دنیا کو سدھار چکے ہوتے اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو اب تک کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں  چَکّیِ پِیسنا ان کا مقدر ٹھہرتا کہ ہماری فوج کی بنیادی شان یہی ہے کہ جو حکم ملے اس پر عمل کرتی ہے، فوجی دماغ استعمال کرنے کی کوشش نہیں  کرتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے لگے تو ڈسپلن کی دھجیاں  اڑ جائیں  گو پاکستان میں  اہم فوجی پوسٹوں  کے لئے قابلیت کا معیار سخت ہے مگر دنیا بھر میں  رواج ہے کہ فوج میں  ایسے لوگوں  کو بھرتی کیا جائے جو تعلیم میں  سب سے کمزور اور زیادہ بحث و تمحیص کے عادی نہ ہوں  پاکستان کی کسی بھی گوشت مارکیٹ میں  چلے جائیں  آپ سِری پائے کے شوقین ہیں  تو قصاب آپ سے پوچھے گا کہ سِری”سادہ” لینی ہے یا "فوجی” کہ اُس سِری میں  سے وہ مغز نکال کر الگ بیچتے ہیں  اور نتیجتاً سستی ہوتی ہي… معروف دانش ور اور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کی صاحبزادی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر اعتراض بھی دراصل پڑھنے لکھنے کے اِسی شوق کی کمی کے باعث ہے کیونکہ یہ کتاب بنیادی طور پر محققین اور ریسرچ سکالرز کیلئے Food for thought ہے نہ کسی پر اعتراض ہے نہ کسی پر تنقید۔
بات دوسری طرف نکل گئی ذکر ہر حکومت کے آخری وقت میں  اس کی پیٹھ میں  چھرا گھونپ کر نئی حکومت میں  شامل ہونے والوں  کا ہورہا تھا لیکن اب کی بار جس طرح چیف جسٹس کے حوالے سے وکلاء کی تحریک ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے ،سیاسی کارکن بھی حکمرانوں  کی توقعات اور عزائم کو پاش پاش کئے جارہے ہیں  50 سینٹی گریڈ کی گرمی اور جیل… سیاسی کارکنوں  سے مطالبہ صرف اتنا کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے فارم بھر دیں  لیکن ابھی تک کسی نے نہیں  بھرا آگے کیا ہوگا ہم نہیں  جانتے لیکن جس نے بھی گرفتاریوں  کا فیصلہ کیا ہے اس نے خود اپنے لئے اچھا نہیں  کیا، کہ جاتے جاتے لوگوں  پر مہربانی کرنی چاہئے ظلم نہیں ۔ انصاف کرنا چاہئے زیادتی نہیں ، آپ لوگوں  کو استعمال کی چیزیں  سَستی نہیں  دے سکتے  نہ دیں  ایک میٹھا بول تو بول ہی سکتے ہیں
دِلبری، پیار، لُطف ہمدردی
کام کی کوئی شَے تو سَستی کر
ملک کے پہلے آئین شکن آمر کے پوتے اور آخری آئین شکن کے "چھوٹے” وزیر خزانہ عمر ایوب خان اگر  لوگوں  کے یوٹیلٹی سٹورز پر لائنیں  نہ بنانے پر چِیں  بَجبِیں ہوں  تو کون اعتراض کرے گا لیکن چودھری پرویزالٰہی کہیں  کہ غربت 12 فیصد کم ہوگئی ہے تو یہ ان کو زیب نہیں  دیتا غربت سے امارت کی آخر تک پہنچنے کے باوصف انہیں  یقیناً لوگوں  کی حالت زار کا پتا ہونا چاہئے ورنہ لوگ تو یہی کہیں  گے کہ
ہم ایسے سادہ دلوں  کی نیازمندی سے
بُتوں  نے کی ہیں  جہاں  میں  خُدائیاں  کیا کیا؟
اصل میں  ہم لوگ، خاص طور پر پنجابی اس بات کے عادی ہیں  کہ حکمران کو اندازہ ہی نہیں  ہونے دیتے کہ اسکے پاؤں  زمین پر نہیں  خلاء میں  ہیں  اوراس کے ہاتھ میں  سونا نہیں  ریت ہے جو پھسلتی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ جس طرح ہماری مسجد وں سے قبرستان جانے والی چارپائیوں  کے پاؤں  کی طرف لکھا ہوتا ہے کہ "دارا جب مارا گیا تو اس کے دونوں  ہاتھ کفن سے خالی تھے۔” بالکل اسی طرح جب ہمارے حکمرانوں  کا آخری وقت آتا ہے تو ان کے دونوں  ہاتھ بھی بالکل خالی ہوتے ہیں  نہ ان کے آگے کوئی "ہٹو بچو” کی صدائیں  دینے والا ہوتا ہے نہ پیچھے، اور مڑ کر دیکھیں  تو حفیظ جالندھری والی بات ہوتی ہے
دیکھا جو تِیر کھا کے کمیں  گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں  سے ملاقات ہوگئی
چیف جسٹس کیخلاف بیان حلفی دے کر میجر (ریٹائرڈ) ضیاء الحسن تو آئی جی سندھ تک لگ گئے لیکن بے چارا میجر (ریٹائرڈ) بلال جھوٹا بیان دینے کے باوجود ابھی تک غیرملکی پوسٹنگ کیلئے خوار ہورہا ہے اگرچہ پنجاب کے بعد سندھ کا آئی جی لگنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی وزیراعظم وزیر ماحولیات بننے پر آمادہ ہوجائے لیکن نوکری پیشہ لوگوں  کی اپنی مجبوریاں  ہوتی ہیں  یہ الگ بات کہ اپنی مجبوریوں  کو سامنے رکھنے کے بجائے اگروہ اپنا اور قوم کا مستقبل سامنے رکھیں  تو سب کا بھلا ہو… پھر بھی کچھ لوگوں  کی بڑی ہمت ہوتی ہے کہ منہ کھول کر مانگ لیتے ہیں  حالانکہ اگر خاموش رہیں  تو شاید زیادہ نوازے جائیں
فَیض نَظر کے واسطے ضَبط سُخن چاہئے
حرفِ پریشاں  مت کہہ اہلِ نَظر کے حضور
لیکن اب چونکہ "اہلِ نَظر” بھی بدل گئے ہیں  اور "فَیض نَظر” کے متلاشی بھی سو جو کچھ ہورہا ہے اسے ہونے دیں  کہ ہم سب کتنے بھی گنہگار کیوں  نہ ہوں  یہ عقیدہ ضرور رکھتے ہیں  کہ اللہ ہمارا انجام اچھا ہی کرے گا۔

 

 

 

 

تبصرہ کریں