اطہرمسعود کا کالم — ۔دیدۂِ بینا

Athar Masood Column – Dida -e- Bina

دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا جون 8, 2007

Friday, June 08, 2007
 

دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا

 

 اِسی باعث تو قَتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یُوسفِ بے کارواں ہوکر
صدر پرویز یقیناً حقیقت پسند ہیں کہ انہیں اپنی تنہائی کا اندازہ بھی ہے اور یقین بھی، وہ اندر سے کتنے ڈرے ہوئے اور پریشان ہیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے اُن کا خطاب ہی کافی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ صدر مملکت سخت ناراض بھی تھے اور غصے میں بھی وہ گِلہ مند بھی تھے اور گلوگیر بھی۔انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ "حکومتی اتحاد کے لوگوں نے مشکل میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ افغان پالیسی میں تبدیلی کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر قدیر کا، اکبر بگٹی کا مسئلہ ہو یا عدالتی بحران اور 12 مئی کو کراچی میں ہونے والے واقعات کا …آپ لوگوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا” وہ کہہ رہے تھے "ملک بھر میں حکمران اتحاد کے ایک ہزار سے زیادہ وزیر، مشیر، پارلیمانی سیکرٹری اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین موجود ہیں لیکن میرے دفاع میں 10 لوگ بھی نظر نہیں آئے۔ البتہ یہ لوگ اپنی نجی محفلوں میں مجھ پر تنقید کرتے رہے۔ آپ لوگ اعصاب کی جنگ ہار چکے ہیں۔ میڈیا کے معاملہ میں آپ کچھ نہیں کرسکے اور یہ کام مجھے خود کرنا پڑا ہے۔ اِسی لئے پیمرا آرڈیننس کو "دانت” دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ لوگ (میڈیا والے) مجھے دیوار سے لگا رہے تھے۔ (جب یہ دانت کاٹیں گے تو) قانون کی حکمرانی بحال ہوگی… آپ لوگ بتائیں آپ کا کوئی رول ہے یا نہیں کیونکہ میں پہلی بار پریشان ہوں۔ آپ لوگ نہیں جانتے مجھے تنہا کردیا گیا تو ملک کا کیا بنے گا؟ اور آپ کا بھی”
پنجاب کے سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور سرکار میں بیٹھے شاید واحد شعر گو اور شعر شناس شعیب بن عزیز کا یہ شعر بچہ بچہ جانتا ہے یقیناً صدر مشرف نے بھی پڑھ یا سن رکھا ہوگا
اَب اُداس پھرتے ہو "گرمیوں” کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
"سردیوں کی شاموں کو گرمیوں کی شاموں” میں حالات اور موجودہ گرمی کے حوالے سے تبدیل کیا ہے کہ جوں جوں گرمی بڑھ رہی ہے مظاہرین کی  گرمی اور تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ گرفتاریاں اور میڈیا پر پابندیاں ان کی تعداد کو کم نہیں کر پارہیں بلکہ اضافہ کا باعث بن رہی ہیں۔ صدر صاحب نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا ہے اس پر کسی مزید تبصرے کی ضرورت نہیں کہ یہاں "عیاں راچہ بیاں؟” تاہم کیا جنرل صاحب کو اپنے ساتھیوں کے ماضی کا پتہ نہیں یا ان لوگوں کی کایا کلپ ہوگئی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ خواجہ ناظم الدین، میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، محمد خان جونیجو، میاں نوازشریف سب کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کون تھے۔ یہی یا ان کے آباؤ اَجداد! ان سے صدر مشرف کس طرح کوئی دوسری توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس کا جواب خود اُنہی کے پاس ہوگا۔
کچھ لوگوں کے مطابق پیمرا آرڈیننس پر عملدرآمد معطل کرکے نافذ کرنے والوں نے مذاکرات کا دروازہ کھولا ہے۔ کچھ کے مطابق انہوں نے تُھوک کے چاٹا ہے، کچھ کے مطابق یہ سجدۂِ سہو ہے اور کچھ کے مطابق انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ ان تبصروں کی  حقیقت تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ بات طے ہے کہ غلطی کا احساس بالکل نہیں ہوا۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ پریس کیلئے بھی پیمرا آرڈیننس کی طرز کا نیا قانون بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔Both optimists and pessimists contribute  to our society the optimists invent airoplane and the passimists the parachute  اب حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہوائی جہاز ایجاد کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پیراشوٹ بنانے والوں میں؟
قومی اسمبلی میں جوکچھ ہوا وہ کم سے کم لفظوں میں شرمناک تھا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اخبار نویسوں نے غُنڈہ گردی کی یا اس ہنگامے کو حکومتی ایجنسیوں نے بڑھاوا دیا  کیا یہ سب "کسی” خفیہ ہاتھ کی پلاننگ کا نتیجہ تو نہیں؟…یوں تو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صحافیوں کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی  کہ ہمارے عقیدے کے مطابق
جو ظُلم پہ لعنت نہ کرے آپ لَعِیں ہے
جو جَبر کا مُنکر نہیں وہ مُنکرِ دِیں ہے
لیکن نہ جانے بار بار دل میں یہ خیال کیوں آرہا ہے کہ کہیں کچھ اخبار نویس جانے انجانے میں حکومت کے پھیلائے ہوئے دام میں تو نہیں آتے جارہے۔ اخبار نویس کی شان اس کا مُکّہ،آواز کی بلندی  یا جسم کی قوّت نہیں اُس کا قلم ہوتا ہے اور جب حکمرانوں کا احوال یہ ہو کہ
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نَظر روشنی سے ڈرتے ہوں
تو اُن سے کسی بھی اقدام یا کارروائی کی توقع رکھنی چاہئے یہی وہ مرحلہ ہے جو احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے کہ بقول عبدالحمید عدم
اَے عدم احتیاط لازم ہے 
لوگ مُنکر نکیر ہوتے ہیں
غیر ضروری مباحثوںاور تنازعات میں اُلجھ کر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر پابندیاں لگوالینا دانش مندی نہیں بے وقوفی کہلائے گا۔ ابھی تو "نسخہ ہائے وفا کی تالیف” باقی ہے کہ "مجموعہ خیال” ابھی فرد فرد ہے۔” یوں بھی کسی کا نقطۂِ نظر جو بھی ہو ہمارے خیال میں پارلیمنٹ ملک کا مقدس ترین اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ عدلیہ اور فوج سے بھی بالاتر۔ پارلیمنٹ بے شک ربڑ سٹمپ ہو وہ عوامی حاکمیت کا نشان ہے۔ اس کی توہین کرنا یا توہین کی کسی سازش میں شامل ہونا ہمیں بالکل زیب نہیں دیتا اور اگر اس غلطی پر پارلیمنٹ سے معذرت بھی کرلی جائے تو کسی کی ناک نیچی نہیں ہوگی کہ ہم عوام کی حکمرانی کے آگے سر جھکانے والے لوگ ہیں۔ ضِد اور غُنڈہ گردی حکمرانوں اوران کے "غبی ڈفر” جیسے وزیروں کو ہی مبارک ہو۔ یا پھر شیخ رشید جیسے سیاسی دانشوروں کو جو "کالے کوٹ” "کالے برقعے” اور "کالے کیمرے” کو روکنے کی بات کررہے ہیں۔ کاش وہ "کالے منہ” والے لوگوں کو روکنے کی بات کرتے نہ کہ "کالے قانون” بنانے کی حمایت کرتي… ہم اخبار نویسوں کو اپنا کام کرنا ہے اور کرتے ہی جانا ہے کسی رکاوٹ یا کسی شرارت سے ہمیں اپنی منزل کھوٹی نہیں کرنی، اور منزل کیا ہے؟ آزادیٔ صحافت، مکمل آزادیٔ صحافت… کیونکہ آج کل تو حالت یہ ہے
نہیں وُقعت کسی اہلِ نظر کی
عبادت ہورہی ہے سِیم و زَر کی
خوشامد کا صِلہ تَمغائے خِدمت
خوشامد سے ملے سِفلوں کو عِزّت
خوشامد جو کرے فَنکار ہے وہ
جو سچ بولے یہاں غدّار ہے وہ
اِس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ تاہم صدر کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید حامد، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ کے عدالت میں داخل کئے حلف نامے سامنے پڑے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا جواب ابھی نہیں آیا۔ بیانات میں اسمبلیاں توڑنے اور نگران حکومت کا سربراہ بننے کے الزامات  بظاہر نئے لگتے لیکن بعداز مرگ واویلہ ہیں کہ باقی ساری باتیں گھسی پٹی ہیں۔ ان حلف ناموں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو کم از کم ایک سو سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں تاہم صرف ایک سوال جس کا جواب کسی نے نہیں دیا وہ یہ کہ جب جنرل پرویزمشرف اور چیف جسٹس افتخار چودھری کی ملاقات ہورہی تھی تو یہ سب لوگ وہاں کیا کررہے تھے؟کیا کوئی تحقیقات ہورہی تھیں؟ یا کچہری لگی ہوئی تھی؟ اور اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس خود آئے انہیں بلوایا نہیں گیا  اگرچہ آنا یا بلوایا جانا کوئی اہم بات نہیں پھر بھی جب سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا تو اس میں انہیں بلوائے جانے (Called)کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ یوں بھی کسی باس کے پرسنل سٹاف کا اُس کے حق میں بیان اور لاپتہ افراد کے متعلق خفیہ ایجنسیوں کے سپریم کورٹ میں بیانات کے بعد ان کے بیانات کی وُقعت اور حقیقت کتنی قابل یقین رہتی ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں؟
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا

 

تبصرہ کریں